اسلامیات

اسلام میں رزق حلال کی اہمیت

مفتی عبدالمنعم فاروقی

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ وَلاَ تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا( النساء،۲۹)’’اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے اور نہ خون کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے ‘‘قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا(البقرء،۲۷۵)’’ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے‘‘ اور قرآن مجید میں تیسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یَا أَیُّہَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ (البقرء ،۱۶۸)’’اے لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطانی راستے پر مت چلو وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے‘‘ ۔
اسلام میں رزق ِ حلال اور اکل حلا ل کی بڑی اہمیت دی گئی ہے ، رسول اللہ ؐ نے عبادت کی قبولیت ،دعاکی اجابت اور انابت الی اللہ کیلئے رزق حلال واکل حلال کو ضروری قرار دیا ہے ، ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے رسول اللہ ؐ سے درخواست کی کہ یارسول اللہ ؐ آپ دعا فرمائیں کہ میں مستجاب االدعوات ہو جاؤں ،تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا :اے سعد! اپنا کھانا طیب کرلو تم مستجاب الدعوات ہوجاؤگے ،اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے پرورش پاتا ہے اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے (معجم الاوسط : حدیث: ۶۴۹۵)، آپؐ نے ایک موقع پر ان لوگوں کو جنت کی خوشخبری دی جو عامل سنت ہیں، اکل حلال کھاتے ہیں، اورلوگ ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں(شعب الایمان)،اس کے بر خلاف اسلام کے مقرر کردہ حرام چیزوں سے اجتناب نہ کرنا بڑی سرکشی ،احسان فراموشی ،بے مروتی اور بے حیائی کی بات ہے ایسا شخص خدا اور رسولِ خداؐ کی نظر میں بے وفا اور بے حیا ہوتا ہے ،ایک حدیث میں آپ ؐنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے حیا کر نے کی طرف توجہ لاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سر کی حفاظت اور وہ چیزیں جو سر میں جمع ہیں،پیٹ کی حفاظت اور وہ چیزیں جو پیٹ سے لگی ہوئی ہیں،موت اور موت کے بعد حالات کو یاد کرے ،جو آخرت کو یاد کرے وہ دنیا کی زیب وزینت چھوڑ دے ،جو ایسا کرے گاوہ اپنے اللہ سے حیا کا حق ادا کرے گا(ترمذی:۲۰۰۰)، اللہ تعالیٰ سے شرم وحیا کا تقاضہ یہ ہے کہ جو کام اس کی نظر میں بُرا ہو اسے ہر حال میں چھوڑ دیا جائے اور اپنے سے کوئی ایسا کام نہ کرے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بنے اور اس کے حیا کے خلاف ہو،اس حدیث میں حیا کا تقاضہ تین چیزیں بتلائی گئی ہیں ،ایک سر کی حفاظت یعنی آنکھ ،کان اور زبان کو ایسی جگہوں سے بچانا کہ جہاں استعمال کرنے سے خدا نے منع کیا ہے،دوسرے پیٹ کی حفاظت یعنی پیٹ کو حرام کھانے اور پینے سے بچانا ، تیسرے موت کی یاد اور اس کے بعد یعنی قبر وحشر کے حالات کو یاد کرنا ،اس سے گناہوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے ،جس شخص نے بھی ان تین چیزوں پر عمل کر لیا گویا اس نے اپنے اللہ سے حیا کا حق ادا کیا۔
احادیث مبارکہ میں رزق حرام اور اکل حرام کے دنیوی اوراخروی دونوں نقصانات کا ذکرنہایت جامع الفاظ میں کیا گیا ہے ، ایک موقع پر آپ ؐنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہیں اور پاکیزہ مال کے علاوہ کوئی اور مال اپنے لئے قبول نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزیں استعمال کرنے کے بارے میں اپنے رسولوں کو جو حکم دیا تھا وہی مؤ منوں کو بھی حکم دیا ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ(المؤمنون،۵۱)’’اے رسولو! عمدہ پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک کام کرو ،بلاشبہ ہم تمہارے کام سے واقف ہیں‘‘ اور آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُم(البقرہ ،۱۷۲) ’’اے ایمان والو! ہماری عطا کردہ پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ ‘‘ پھر اس کے بعد آپ ؐنے اس شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر کے دوران غبار آلوداور پراگندہ بال ہونے کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگے کہ اے میرے رب اے میرے رب! لیکن اس کا کھانا پینا اور پہننا حرام ہو اور اس کی حرام سے پرورش ہوئی ہو تو کہاں اس کی دعا قبول ہو سکتی ہے؟(مسلم:۱۰۱۵)ایک حدیث میںہے کہ جس نے کپڑا خریدا اور اس میں صرف ایک درھم حرام شامل کیا تو وہ کپڑا جب تک بدن پر رہے گا تو اس کی نماز قبول نہیں کی جائے گی(مسند احمد:۵۷۳۲) ایک حدیث میں ہے کہ جس کے پیٹ میں ایک لقمہ بھی حرام کمائی کا پہنچ جائے تو اس کی نحوست یہ ہوگی کہ چالیس روز تک اس کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں قبول نہ ہوگا(المعجم الاوسط :۶۴۹۵) ۔
ایک بزرگ سے کسی نے اچھی اور بُری روزی کے متعلق سوال کیا تو جواب میں انہوں فرمایا کہ:دنیا کی بہترین روزی حلال مال ہے جس کے ذریعہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی زندگی عزت کے ساتھ گزرتی ہے ،یہی وہ روزی ہے جس سے انسان کو قلبی سکون اور عبادت میں دلجمعی عطا ہوتی ہے، یہ جسمانی طاقت کا بھی ذریعہ ہے اور اسی سے خد مت خلق کا موقع نصیب ہوتا ہے جس سے دنیا وآخرت دونوں بنتی ہیں،اور دنیا کی بدترین روزی حرام مال ہے جس کو ہزار مشقتوں کے بعد انسان جمع کرتا ہے،اور نافرمانی کی وجہ سے دنیا کی بے چینی اور آخرت کی تباہی مول لیتا ہے،مر نے کے بعد وارثوں کیلئے چھوڑ جاتا ہے جو چندن کی عیاشیوں میں اس کو برباد کر دیتے ہیں اور ان سب برئیوں کا وبال اصل مالک پر رہتا ہے،مگر افسوس کہ حقائق جاننے کے باوجود لوگ حرام روزی کمانے اور حرام رزق کھانے میں مصروف ہیں۔
کسی عالم ربانی نے قرآن وحدیث کی روشنی میں رزق حرام اور اکل حرام کے دنیوی اوراخروی بہت سے نقصانات گنوائے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں(۱) حرام روزی کمانے اور حرام غذا کھانے والا خدا کی نظر سے گر جاتا ہے(۲) اس کا دل سخت ہوجاتا ہے(۳)اس کی زندگی سے اطمینان وسکون جاتا رہتاہے(۴) اُسے بیماریاں گھیر لیتی ہیں(۵)اولاد اس کی نافرمان بن جاتی ہے(۶) اس کا تعلق مسجد سے ٹوٹنے لگتا ہے یعنی نمازیں قضا ہونے لگتی ہیں(۷) اس سے عبادت کی لزت ختم ہوجاتی ہے(۸) وہ دعائیں کرتا ہے مگر اس سے دعاؤں کی قبولیت روک دی جاتی ہے(۹)لوگوں کے جسم تو اس کے تابع ہوتے ہیں مگر ان کے دل متنفر ہو جاتے ہیں(۱۰) وہ فرشتوں کی لعنت کا مستحق ہوجاتا ہے(۱۱) اور بسا اوقات رزق حرام واکل حرام اس کی بری موت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
رزق حرام اور اکل حرام کے اس قدر نقصانات جاننے کے باوجود بہت سے مسلمان آج بھی جھوٹ، دھوکہ اور فریب کے ذریعہ حرام وناجائز مال ودولت کمانے میں مصروف ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ مسلمان حرام و ناجائز اور سودی کاروبار کی حرمت وقباحت سے واقف نہیں ہیں بلکہ وہ دھوکہ اور فریب کی تجارت پر مرتب ہونے والی سزاؤں کو جانتے ہیں، اسی طرح انہیں سود کی لعنت ، اس کی دنیوی نحوست اور اخروی عذاب کا بھی علم ہے مگر پھر بھی نفسانی خواہشات کے پجاری بن چکے ہیں ، یہ دنیا کی حقیر نظروں میں بڑا اور مالدار بننے کی حرص میں ،جھوٹ ،فریب ،دھوکہ اور بے ایمانی کے ذریعہ مال ودولت کے انبار لگانے اور سودی لین دین کے ذریعہ غریبوں کے خون چوسنے میں مصروف ہیں،دنیا کی حرص اور بڑا بننے کے جنون نے انہیں خدا اور رسول خدا کا باغی بنا دیا ہے ،آج سے چند سال پہلے تک بھی رہن سینٹر کے نام سے صرف غیر مسلم ہی سودی کاروبار کیا کرتے تھے لیکن آج بہت سے مسلم محلوں میں اسلام کے نام لیوا سودی لین دین کی دکانیں چلا رہے ہیں، مسلمانوں میں سود ی لین دین کی کثرت امت مسلمہ کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے ، دنیا کی حرص ،مالدار بننے کا جنون ،غریبوں کی تذلیل اور ایک دوسرے پر فوقیت جتانے کیلئے مال کا حصول ،یہ چیزیں زمینی آفتوں اور آسمانی بلاؤں کا سبب ہیں،اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بطور سزا کے بے سکونی، غم وپریشانی اور فقر وفاقہ کو مسلط کر دیتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے ارشاد ہے کہ جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ دنیا کی فکر (اور بطور تفاخر کے بڑا بننے کی خواہش ) اس پر سوار تھی تو اللہ تعالیٰ اس پر بطور سزا کے تین چیزوں کو مسلط کر دیتا ہے ایک کبھی ختم نہ ہونے والا غم دوسرا کبھی ختم نہ ہونے والی مصروفیت تیسرا فقر وفاقہ ، آج کل کاروبار میں بے اعتدالی کے علاوہ کھانے اور پینے کے معاملہ میں بھی کافی بے احتیاطی پائی جا رہی ہے ،کھانے والے کھاتے ہی چلے جا رہے ہیں،لیکن کھانے سے قبل یہ زحمت گوارا نہیں کرتے کہ آیا یہ چیزیں حلا ل وطیب بھی ہیں یا نہیں ،حالانکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک مسلمان کیلئے کھانے اور پینے سے پہلے مکمل معلومات حاصل کرلینا ضروری ہے ، کیونکہ غذا ایک ایسی چیز ہے جس کا گہرا اثر انسانی جسم کے ساتھ اخلاقیات بلکہ عبادات پر بھی پڑتا ہے ،اگر انسان کے پیٹ میں حرام لقمہ پہنچ جاتا ہے تو وہ خالق کی نظر میں گر جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی روحانی پرواز رک جاتی ہے اور پستی اس کا مقدر بن جاتی ہے،اس لئے اہل علم فرماتے ہیں کہ آدمی ایسی آمدنی کو ٹھوکر ماردے جس سے اس کی روحانی پرواز میں کوتا ہی آتی ہے ؎
اےطائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×